
پاکستانی ترقی پسند سیاست کل اور آج …..حیدر جاوید سید
میں اس سوال کا جواب تلاش کررہا ہوں۔سوال ہوتے ہی جواب پانے اور کھوجنے کے لئے ہیں
پتہ نہیں آپ حبس محسوس کررہے ہیں یا نہیں لیکن مجھے محسوس ہورہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ چار اور خاموشی ’’رقصاں‘‘ ہے ۔ ’’رقصاں‘‘ سے بہتر تھا کہ عرض کرتا خاموشی کا برہنہ ناچ جاری ہے لیکن ساعت بھر کے لئے رکئے۔ میں کوئی انقلابی وغیرہ بالکل نہیں ہوں سبز اور سرخ انقلاب دونوں سے زندگی نے پرہیز سکھادیا، مجھے اس پر زندگی کا شکر گزار ہونا چاہیے یا شکوہ کرنا چاہیے؟
اکثر جب یہ سوال کچوکے لگاتا ہے تو میں کتابوں میں پناہ لے لیتا ہوں۔ اس بار بڑی عجیب صورتحال ہے حبس سے دم گھٹ رہا ہے اور سوال گلے کا پھندہ بن چکا۔ کتابوں کے اوراق میں جی نہیں لگ رہا خلاف معمول میں کئی ہفتوں سے کچھ نیا نہیں پڑھ رہا۔ پرانا پڑھا ہوا دہرانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہورہی ۔
لگی بندھی مزدوری روزی روٹی کے لئے ضروری ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتا پڑھتا یا لکھتا بولتا۔ ویسے اس سب کی ضرورت ہی کیا۔ یہ جو ہمارے آپ کے چار اور جیتے بستے رہتے لوگ ہیں ا ن سب کو صبر کے خیمے میں شکر کی تسبیح پڑھنا مرغوب ہے۔
میں بھی ان کی طرح ہونے اور جینے کی کوشش کرنے کی سوچتا ہوں پر نہیں ہوپاتا میرے صبر کے خیمے کو حالات لے اڑے اور شکر کی تسبیح بھوک سے پگھل گئی۔
تنہائی ہے اکلاپے کی ابدی سزا والی تنہائی ہم دم دیرینہ میسر نہیں کہ بات ہوسکے۔ ویسے بات یا باتیں کرنے کا فائدہ کیا ہے۔ ہماری نسل نے جو خواب دیکھے تھے وہ تعبیروں سے پہلے چوری ہوگئے۔ بس ہم میں اعتراف کا یارا نہیں تھا۔ اسی لئے آنکھیں موندے خواب دیکھنے کی اداکاری کرتے رہے لیکن اب آنکھیں بھی بند نہیں ہوپارہیں کیوں؟
میں اس سوال کا جواب تلاش کررہا ہوں۔سوال ہوتے ہی جواب پانے اور کھوجنے کے لئے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ایک نہیں کئی سوال ادھم مچائے ہوئے ہیں۔ مثلاً چند دن ادھر بیٹی سے بات ہورہی تھی اچانک اس نے پوچھا
’’بابا جانی!کہیں ایسا تو نہیں کہ بسا اوقات ہم جسے اصول قرار دے رہے ہوں یہ خود ستائی ہو اور جسے ڈٹ جانا سمجھ رہے ہوں وہ فرار ہو؟‘‘
بیٹی کے اس سوال پر میں نے نصف صدی سے چند برس اوپر کی عملی ( محنت مشقت سے عبارت ) زندگی کا تجزیہ کیا تاکہ سمجھ سکوں درست کیا ہے اور ہم سے غلط کیا ہوا۔
میں اوائل زندگی میں نیشنل عوامی پارٹی سے ذہنی اور قلبی طور پر متاثر تھا پھر نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) پر پابندی لگی اس کی جگہ این ڈی پی کے نام سے سیاسی جماعت بنی نیپ سے متعلق کچھ لوگوں نے این ڈی پی میں شمولیت کی بجائے پروگریسو نیشنل پارٹی کے نام سے الگ جماعت کی بنیاد رکھی۔ مجھ سمیت بہت سارے دوستوں نے این ڈی پی سے تعلق جوڑا۔ اس کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ این ڈی پی کے منشور کا یہ نکتہ رہا ’’لسانی ثقافتی تہذیبی اور تاریخی بنیادوں پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل‘‘ ہم سمجھ رہے تھے کہ اس نکتے سے سرائیکی صوبے کے قیام کے مطالبہ کو تقویت ملے گی۔
جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا کچھ عرصہ بعد نیپ کے رہنمائوں کے خلاف حیدر آباد سازش کیس ختم کرکے خصوصی عدالت تحلیل کردی گئی جیل سے رہائی کے بعد نیپ کی پشتون اور بلوچ قیادت کے راستے الگ ہوگئے۔
راست الگ ہونے کی وجہ حیدر آباد جیل کی اسیری کے ماہ و سال میں ان کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات تھے۔ یہ اختلاف مزید گہرے اس وقت ہوگئے جب خان عبدالولی خان نے حیدر آباد جیل سے رہائی کے بعد ’’پہلے احتساب اور پھر انتخابات‘‘ کا موقف اپنایا
یہ وہ لمحہ تھا جب ہم چند دوست این ڈی پی سے الگ ہوگئے۔ ہمارا خیال کیا موقف یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو سے سیاسی اختلاف تھے مارشل لاء پاکستانی عوام کی توہین ہے۔ پہلے احتساب اور پھر انتخابات کی بات کرنے کا تمامتر فائدہ اقتدار پر قابض فوجی رجیم کو ہوگا اور پھر تقریباً یہی ہوا۔
برسوں بعد این ڈی پی کے بطن سے اے این پی نکلی ایک مرحلہ پر سندھی عوامی تحریک اور چند چھوٹی تنظیموں کو ملاکر عوامی نیشنل پارٹی بھی بنائی گئی ۔ اس نئی جماعت کے سیکرٹری جنرل سردار شوعت علی تھے مگر یہ جماعت چند قدم ہی چل پائی اس کی وجہ یہ بنی کہ پارٹی کے پشتون رہنمائوں نے سوشلسٹ نظریات پر جدوجہد کی بجائے پشتون قوم پرستی کی ردا اوڑھ لی۔
پلیجو صاحب نے سندھی عوامی تحریک کی بحالی کا اعلان کردیا اسی عرصے میں ڈاکٹر طاہرالقادری بھی پاکستان عوامی تحریک کے نام سے سیاسی جماعت مارکیٹ میں لے آئے تھے ۔ نیپ، این ڈی پی اور پھر اے این پی۔ (اب بھی اے این پی ہی ہے) ترجیحات کی تبدیلی نے ایک ملک گیر ترقی پسند جماعت کو علاقائی قوم پرست جماعت بنادیا درمیان میں ایک موقع آیا جب سندھ بلوچستان میں اے این پی کی نمائندگی کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں بھی اس کی نمائندگی تھی میانوالی سے تعلق رکھنے والے ایک آزاد رکن نے اے این پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی تب کچھ دوستوں کو امید بندھی کہ اے این پی چاروں صوبوں میں اس نمائندگی کو نظریاتی طورپر نیپ کے احیا کے لئے ایک موقع سمجھے گی مگر نہیں سمجھا گیا ۔
اگر سمجھ لیا گیا ہوتاتو افغان پالیسی کی ریاستی ترجیحات کے کند خنجر سے اے این پی ذبح نہ ہوپاتی۔ میری رائے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے 1988ء میں اے این پی کو اس وقت کے صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) اور بلوچستان سے حاصل ہونے ولی نمائندگی کو اپنی افغان پالیسی کے لئے ’’زہر‘‘ سمجھا اور تریاق تلاش کرنے کی حکمت عملی وضع کرلی۔
ہم آگے چل کر اس حکمت عملی پر ہوئے مرحلہ وار عمل پر بات کریں گے۔ فی الوقت یہی کہ کیا اے این پی کی دستیاب قیادت اس پر غور کرنے کی زحمت کرے گی کہ ایک ملک گیر ترقی پسند جماعت کو پشتون قوم پرست جماعت بنادینے سے مجموعی سیاسی عمل کو جو نقصان ہوا اس کاذمہ دار کون ہے؟
اے این پی کی قیادت اور اس کے پشتون اہل دانش کے پاس یقیناً مضبوط دلائل ہوں گے۔ قومی شناخت اور قومی اکائی کے حقوق مسلمہ حقیقت ہیں مگر ایک ایسے سماج میں جہاں مختلف قومیتوں کا حقیقی وجود ہو اس میں کسی جماعت کا خود کو ایک خاص قوم تک محدود کرلینا درست ہوگا یا ترقی پسند خیالات و نظریات کے ساتھ مختلف الخیال قومیتوں میں خود کو قابل قبول جماعت کے طور پر برقرار رکھنا؟
یہ ایک اہم سوال ہے اس سے آنکھیں چرانے کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ مکالمے کی ضرورت ہے۔ گو مجھے امید نہیں کہ مکالمہ ہوپائے گا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سکیورٹی سٹیٹ کا آسیب جو محرومیاں بوتا ہے اس کے نتائج بھیانک ہوتے ہیں۔
ایک طالب علم کے طور پر میری رائے یہی ہے کہ 1980 ء کے وسط تک کی ترقی پسند قیادت سکیورٹی سٹیٹ کی چال بازیوں اور ملک گیر سیاسی جماعتوں کے کردار کو محدود کرنے کے لئے رچائی گئی سازشوں کو سمجھنے میں ناکام رہی۔
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم ریاستی چالبازیوں اور سازشوں کا رونا تو روتے ہیں لیکن اپنے اندازوں کی غلطی مصلحت کوشی اور نظریات کو حصول اقتدار پر ترجیح دینے کے ’’شوق‘‘ کا اعتراف کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے بلکہ اپنے حصے کی خرابیوں کا ذمہ دار بھی سکیورٹی سٹیٹ کو قرار دے کر داد پاتے ہیں۔
بہرصور آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر غور و فکر کیا جائے کہ پاکستانی سیاست کی ترقی پسند سمجھی جانے والی جماعتوں کا کردار محدود کیوں ہوا کیوں ان جماعتوں کی قیادت بدلتے ہوئے حالات میں مزاحمت نہیں کرپائی اور وہ کیا وجہ تھی کہ یہ سمجھ لیا گیا کہ دوسری اقوام کے ساتھ مل کر عوامی جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے کی بجائے خود کو ایک قومی شناخت اور اس کے حقوق تک محدود کرلیا جائے؟