بین الاقوامی

صدر ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی خواہش: امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کا اہم بیان

"ہم سب جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ جہاں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کا مقصد عشروں پرانے اختلافات کو ختم کرنا اور فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوتا ہے

مدثر احمد امریکا وائس آف جرمنی
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی ایشیا کے دیرینہ تنازع، مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں حالیہ مہینوں کے دوران جنگ بندی اور سفارتی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
”صدر ٹرمپ کی خواہش عشروں پرانے تنازع کو سلجھانا ہے“
واشنگٹن میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کے دوران جب ٹیمی بروس سے صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا:
"ہم سب جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ جہاں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کا مقصد عشروں پرانے اختلافات کو ختم کرنا اور فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوتا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر جیسے سنگین تنازع میں ثالثی کی خواہش رکھتے ہیں۔”
ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے عالمی سطح پر ایسے کئی تنازعات میں مداخلت کی جہاں پیش رفت کو ناممکن سمجھا جا رہا تھا، اور انہوں نے "ناممکن کو ممکن” بنایا۔
ثالثی کی پیشکش: صرف خواہش نہیں، حکمت عملی کا حصہ
ٹیمی بروس نے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر جیسے حساس معاملے پر کوئی پیش رفت ہوتی ہے، تو اس کا کریڈٹ صرف صدر ٹرمپ کو نہیں، بلکہ نائب صدر اور سیکریٹری روبیو کی مربوط سفارتی کوششوں کو بھی جائے گا۔ انہوں نے کہا:
"یہ واقعی ایک پُرامید اور تاریخی لمحہ ہو سکتا ہے، اگر ہم اس بڑے تنازع پر کوئی ٹھوس مثبت پیش رفت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔”
پاکستانی وفد سے ملاقات: انسداد دہشت گردی اور سیز فائر پر گفتگو
ترجمان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حال ہی میں انڈر سیکریٹری ایلیس ہوکر کی قیادت میں امریکی وفد نے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں آنے والے سفارتی وفد سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں:
انسداد دہشت گردی میں تعاون
سیز فائر کے تسلسل
علاقائی سلامتی
اور بھارت و پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی۔
سیز فائر اور سفارتی روابط کی بحالی: واشنگٹن کی حمایت
بروس نے تصدیق کی کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بندی کا خیرمقدم کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ صرف وقتی اقدام نہ ہو، بلکہ دیرپا امن کی بنیاد بنے۔ انہوں نے کہا:
"ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کو خطے میں امن و ترقی کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، اور امریکہ اس مقصد میں ہر ممکن سفارتی تعاون کے لیے تیار ہے۔”
بھارت کا مؤقف اور سفارتی پیچیدگیاں
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ماضی میں بھارت نے مسئلہ کشمیر پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو دوطرفہ معاملہ قرار دے کر مسترد کیا تھا۔ نئی دہلی بارہا یہ مؤقف دہرا چکی ہے کہ وہ کسی غیر ملکی مداخلت کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اس تناظر میں ٹرمپ کی ثالثی کی خواہش ایک سفارتی چیلنج بن سکتی ہے۔
تاریخی تناظر میں صدر ٹرمپ کی پالیسی
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا ہو۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی انہوں نے 2019 میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں اسی قسم کی پیشکش کی تھی، جسے بھارت نے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا۔ تاہم، ٹرمپ انتظامیہ کے چند سفارتی اقدامات نے خطے میں کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
کیا امریکہ واقعی کشمیر پر مثبت پیش رفت لا سکتا ہے؟
امریکی محکمہ خارجہ کی حالیہ وضاحت سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کو ایک اسٹریٹجک ترجیح کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت اس ثالثی کو قبول کرے گا یا نہیں؟ اور کیا پاکستان اس عمل میں حقیقی شراکت داری کے لیے تیار ہے؟
بہرحال، اگر صدر ٹرمپ واقعی ایک بار پھر عالمی سفارت کاری میں فعال کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو مسئلہ کشمیر پر ان کی ثالثی کی پیشکش جنوبی ایشیا کے لیے ایک نئے باب کا آغاز بن سکتی ہے—یا پھر ایک اور گم شدہ موقع۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button