
دنیا انسانی مسائل پر قابو پائے جنگیں روکے !….ناصف اعوان
اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کرکے ایرانی جوہری تنصیبات کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے اہم ترین شخصیات بھی اس حملے میں شہید ہو چکی ہیں عام شہری بھی شہید ہوئے ہیں
انسانی مسائل جو وقت کے ساتھ حل ہونے چاہیں تھے مگر نہیں ہو سکے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک نے اس حوالے سے سنجیدگی دکھائی
مگر پھر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے لہذا ایک آدھ ملک چھوڑ کر ہر ملک کے اندر بے چینی
پائی جاتی ہے۔ کہیں بے روزگاری کہیں غربت اور کہیں موجودہ نظام سے اکتاہٹ دیکھنے کو مل رہی ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا رہا ہے یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا قطعی طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا کے مفکرین دانشور اور صائب الرائے حضرات مل کر عالمی بے چینی کو دور کرنے سے متعلق سوچ بچار کرتے کیونکہ تہذیبی و شعوری دور میں یہ ممکن نہیں رہا کہ گلوبل ویلیج میں بسنے والے لوگ تنہا زندگی کی مشکلات پر قابو پا سکیں انہیں کسی نہ کسی صورت اکٹھے چلنا ہو گا اور قدرتی وسائل کا استعمال بھی مشترکہ طور سے کرنا پڑے گا کیونکہ یہ طے شدہ امر ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے دستیاب وسائل سے زیادہ دیر تک استفادہ نہیں کر سکتا بتدریج ان میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے لہذا ضروری ہے کہ اہل فکر ماہرین اور امن پسند ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں اس کے بغیر انسانی فلاح و ترقی کا خواب ‘خواب ہی رہے گا کہ اس وقت غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے آبادی بھی اسی طرح بڑھ رہی ہے جس سے نئے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ بالخصوص ہم ایسے ملکوں میں جہاں اگلے چند برسوں میں آبادی بم پھٹنے کا واضح امکان ہے اسی لئے مسائل در مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جن پر قابو پانے کےلئے بھاری قرضے لینا پڑ رہے ہیں مگر پھربھی بڑے ریلیف نہیں دیئے جارہے ایسا ممکن ہی نہیں یہ جو بجٹ سامنے آیا ہے اس میں غربت کے خاتمے کے لئے قابل ذکر رقم نہیں رکھی گئی بلکہ ٹیکسوں کی بھر مار کی گئی ہے جس سے ایک بار عوام کی آہیں بلند ہوں گی مگر یہ بھی ہے کہ وہ شاید اس کے عادی ہو چکے ہیں لہذا وہ چند دن کےبعد سب بھول جائیں گے ۔پٹرول مہنگا بھی خرید رہے ہوں گے اور اشیائے ضروریہ بھی مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ پر آسائش زندگی نہیں چاہتے اہل اختیار نے انہیں مسلسل نظر انداز کیا ہے اور وہ خود خوب مزے لوٹ رہے ہیں ان کے نزدیک غریب عوام کا کیا ہے انہیں جس حال میں بھی رکھا جائے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اس پہلو کو نہیں دیکھ رہے کہ جب لوگ ایک حد سے گزرنے لگیں گے تو پھر نظام زیست بدل ڈالیں گے ۔
بہرحال انسانی سماج کو الم ومصائب سے نجات دلانے کے بجائے جنگ کے میدان سجائے جا رہے ہیں روس یوکرائن کے پرخچے اڑا رہا ہے ۔ اسرائیل غزہ کو اپنی توسیع پسندی کا نشانہ بنا نے کے بعد عربوں کو بھی اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے بلکہ لے چکا ہے اب اس کا رخ ایران کی طرف ہے اس کے بعد پاکستان کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے ؟۔
اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کرکے ایرانی جوہری تنصیبات کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے اہم ترین شخصیات بھی اس حملے میں شہید ہو چکی ہیں عام شہری بھی شہید ہوئے ہیں اسرائیل کے پیچھے کون ہے سبھی جانتے ہیں مگر اس کے عوام جنگ نہیں چاہتے کیونکہ جنگوں کی وجہ سے ان کے معیار زندگی میں کمی آ چکی ہے۔ ے روزگاری بڑھ گئی ہے مگر امریکا پھر بھی پنگے لے رہا ہے اس طرح وہ اپنی معیشت کو مضبوط کر سکے گا نہیں بالکل نہیں۔ اس کی پالیسیوں نے امریکی عوام کو مایوس کیا ہے وہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس امید کے ساتھ اقتدار میں لائے کہ وہ امن وخوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے مگر وہ بھی نمک کی کان میں نمک ہو گئے یعنی وہ اپنے وعدے سے منحرف ہو گئے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام جس کے محافظ و مربی امریکا اور اس کے اتحادی ہیں ٹوٹ رہا ہے جسے وہ جنگوں کے ذریعے تقویت دینا چاہتے ہیں مگر اس صدی کے باسیوں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔اس تناظر
میں دیکھا جائے تو بھارت نے بھی اسی لئے ہم پر یلغار کی کیونکہ وہ لوگوں کو مفلسی وغربت سےچھٹکارا نہیں دلا سکا جس سے پورے ملک میں تبدیلی کی لہر ابھری ہوئی ہے لہذا وہ بھی اپنے نظام کو بچانے اور عوام کو ایک خوف میں مبتلا رکھنے کے لئے کبھی سٹرائیک کرتا ہے تو کبھی باقاعدہ جنگ چھیڑ دیتا ہے مگر اسے منہ کی کھانا پڑتی ہے ہماری مسلح افواج اس کاخوب تیا پانچہ کرتی ہیں اس کے باوجود وہ تڑیاں لگا رہا ہے کہ وہ یہ کر دے گا وہ کر دے گا جس میں پانی کا بند کرنا شامل ہے ہمارا جوہری پروگرام بھی اس کی آنکھ میں خار بن کر چبھتا ہے اس کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اسے کوئی نقصان پہنچا سکے یوں اس کا ہمیں مٹانے کا سپنا کبھی پورا نہیں ہو گا ۔
یہ سب کیا ہے مزکورہ ممالک کے حکمرانوں کو ابھی بھی عقل نہیں آرہی۔ وہ اس زعم میں ہیں کہ وہ بڑے طاقتور ہیں جو چاہیں کر سکتے ہیں اسرائیل اور اس کے ساتھی ایران پر حملہ کرکے بغلیں بجا رہے ہوں گے مگر وہ بڑی غلطی کر رہے ہیں انہوں نے ایران کو موقع فراہم کر دیا ہے آزادانہ حملوں کا۔ اب وہ یمن اور دیگر گروپوں کو بھی باضابطہ طور سے مسلح کر سکے گا پہلے بھی وہ ایسا کرتا تھا مگر اب اس کے ہاتھ جواز بھی آ گیا ہے یعنی ایک اخلاقی رکاوٹ بھی دور ہو گئی ہے اور اگر اسے روس چین کی مدد و حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر جنگ کا نقشہ ایسا بدلے گا کہ امریکا سمیت دوسرے سامراجی ممالک انگشت بدنداں رہ جائیں گے کیونکہ وہ (چین و روس) سمجھتے ہیں کہ امریکا اور اس کے ساتھی قدرتی وسائل سے مالا مال ملکوں پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ ایسا مگر وہ نہیں ہونے دیں گے ۔
بہر کیف بھارت کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آئندہ پاکستان پر جارحیت کی کوشش نہ کرے خواہ اسے پاکستان کا کوئی مخالف ملک بھی پشت پنگا لینے کے لئے کتنا ہی کیوں نہ اکسائے کیونکہ اب چین اس خطے میں طاقت کا توازن کسی صورت بگڑنے نہیں دے گا عقلمند را اشارہ کافی است لہذا لوگوں کے ُدکھوں کو کم کرنے کی بات کی جائے اس بارے سوچا جائے جدید اسلحہ کے بجائے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر غربت بیماری اور جہالت سے نجات حاصل کرنے کی کوئی سبیل نکالی جائے کہ انسانیت سسک رہی ہے آنسو بہا رہی ہے اس کے جسم پر بے حد و حساب زخم لگ گئے ہیں جن پر مرہم رکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ جو آج کے باشعور انسان نے آتش و آہن کا وحشیانہ کھیل شروع کر رکھا ہے اگر جاری رہتا ہے تو ماضی قریب و بعید کے ہولناک تباہی و بربادی کے واقعات معمولی دکھائی دیں گے لہذا دنیا بھر کے امن پسندوں اور انسانیت کے علمبرداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ فاختہ و بلبل مل کر محبت و پیار کے گیت گا سکیں !