
ایٹم بم کا سہرا کس کس کے سر جاتا ہے؟…..تحریرسید عاطف ندیم
اس خبر میں ہم تحقیق کرتے ہیں ان کرداروں کی جو براہ راست یا بالواسطہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں شریک رہے۔
یقیناً! ذیل میں ایک تفصیلی اور تحقیقی انداز میں تیار کردہ خبروں کا کالم ہے جس میں اس سوال کا جواب تلاش کیا گیا ہے کہ "ایٹم بم کا سہرا کس کس کے سر جاتا ہے؟ اور کیا ایوب خان کے ذریعے ڈاکٹر عبدالسلام کا کردار اس میں شامل ہے؟” یہ خبر تاریخی حقائق، سائنسی حوالوں اور سیاسی سیاق و سباق کے ساتھ تحریر کی گئی ہے۔
کیا ایوب خان کے ذریعے ڈاکٹر عبدالسلام اس کا حصہ ہیں؟
پاکستان کا ایٹمی پروگرام عالمی سیاست، سائنسی قابلیت، اور قومی خودمختاری کی ایک پیچیدہ اور دلکش داستان ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی نہیں، بلکہ ڈاکٹر عبدالسلام اور ایوب خان کا بھی کوئی کردار رہا؟ اور کیا اس "سہرا” کا کچھ حصہ انہیں بھی پہنچتا ہے؟
اس خبر میں ہم تحقیق کرتے ہیں ان کرداروں کی جو براہ راست یا بالواسطہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں شریک رہے۔
ابتدائی دور: ایوب خان اور سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد
1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان میں سائنسی تحقیق کا کوئی منظم نظام نہیں تھا۔ ایوب خان نے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں Atomic Energy Commission (PAEC) کو فعال بنانے، ایٹمی ریسرچ کے ادارے قائم کرنے، اور اعلیٰ سائنسدانوں کو ملکی مفاد میں کام کرنے کی ترغیب دی۔
اسی دور میں انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنا سائنس اور ٹیکنالوجی کا مشیر مقرر کیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے اس کردار کو سنجیدگی سے لیا اور پاکستان میں سائنسی اداروں کی بنیاد رکھی جن میں شامل ہیں:
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (PINSTECH)
نیوکلیئر ریسرچ ری ایکٹرز
سائنسی تعلیم اور ریسرچ کا نصاب
یہ تمام اقدامات بعد میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بنے۔
ڈاکٹر عبدالسلام — نظریاتی سائنسدان یا ایٹم بم کے معمار؟
ڈاکٹر عبدالسلام دنیا کے مایہ ناز تھیوریٹکل فزسسٹ تھے، جنہوں نے 1979 میں نوبیل انعام بھی جیتا۔ اگرچہ وہ ایک پرامن سائنس کے داعی تھے، تاہم انہوں نے پاکستان کے سائنسی اداروں کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اہم سوال:
کیا ڈاکٹر عبدالسلام نے ایٹم بم بنانے میں عملی کردار ادا کیا؟
تاریخی ریکارڈ کے مطابق، 1972 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے "ایٹم بم بنانے” کے فیصلے کا اعلان کیا، تو عبدالسلام اس میٹنگ میں موجود تھے۔
"Multan Meeting” کے نام سے مشہور اس میٹنگ میں عبدالسلام، منیر احمد خان (PAEC کے چیئرمین) اور دیگر سائنسدانوں سے بھٹو نے مطالبہ کیا کہ پاکستان جلد از جلد ایٹم بم بنائے۔
اگرچہ عبدالسلام بعد میں ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف بات کرتے رہے، کچھ رپورٹس کے مطابق انہوں نے ابتدائی طور پر منیر احمد خان اور دیگر سائنسدانوں کو اس پروگرام کی سائنسی سمت دینے میں مدد کی۔ خاص طور پر، تھیوریٹکل ماڈلنگ، فزکس ٹیموں کی تشکیل، اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ان کی موجودگی اہم سمجھی جاتی ہے۔
ایوب خان کا پس منظر: پرامن ایٹمی پروگرام یا خفیہ تیاری؟
ایوب خان کے دور میں اگرچہ پاکستان نے ایٹمی تحقیق کا آغاز کیا، مگر اُس وقت سرکاری مؤقف پرامن ایٹمی توانائی کا تھا۔ تاہم اندرونِ خانہ پاکستان نیوکلیئر ری ایکٹرز اور یورینیم کی افزودگی (enrichment) کے لیے ابتدائی ریسرچ شروع کر چکا تھا۔
ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر اشفاق احمد، اور منیر احمد خان جیسے سائنسدانوں نے اس دور میں بنیادی ادارے اور سائنسی انفراسٹرکچر فراہم کیا جو بعد میں ایٹمی ہتھیاروں کے لیے استعمال ہوا۔
ڈاکٹر عبدالسلام کا مؤقف — دو رُخ؟
عبدالسلام کے قریبی افراد اور سوانح نگاروں کے مطابق، وہ ایٹمی ہتھیاروں کے حق میں نہیں تھے، اور انہوں نے 1974 کے بعد، جب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، ریاستی عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ مگر کئی غیر ملکی رپورٹس اور خود ان کے شاگردوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ابتدائی طور پر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے حق میں تھے۔
ایک متنازعہ پہلو:
عبدالسلام نے ویانا میں IAEA کے پلیٹ فارم پر پاکستان کے نیوکلیئر مفادات کے حق میں کئی بار مؤقف اپنایا۔ ان کی سربراہی میں کئی پاکستانی سائنسدانوں نے دنیا بھر میں تربیت حاصل کی۔
تاہم اس سے پہلے منیر احمد خان، اشفاق احمد، ثمر مبارک مند، اور دیگر سائنسدان دہائیوں سے تحقیقی اور فنی بنیاد پر کام کر چکے تھے۔
نتیجہ: سہرا سب کے سر، مگر درجے مختلف
ایٹم بم کا سہرا صرف ایک فرد کے سر نہیں جاتا۔ یہ ایک اجتماعی کوشش تھی جو:
ایوب خان کے فیصلوں سے شروع ہوئی؛
ڈاکٹر عبدالسلام کے سائنس و ٹیکنالوجی کے وژن سے پروان چڑھی؛
منیر احمد خان جیسے سائنسی منتظمین کے ذریعے عمل میں آئی؛
اور عبدالقدیر خان کے ذریعے پایۂ تکمیل کو پہنچی۔
عبدالسلام کا کردار بالواسطہ، نظریاتی اور ادارہ جاتی تھا، جبکہ ایوب خان نے وہ ماحول فراہم کیا جس میں پاکستان کا ایٹمی سفر شروع ہو سکا۔