
لبلبے کے کینسر کا علاج شاید بہتر طور پر ممکن ہو
نئی تحقیق کے بعد امید پیدا ہوئی ہے کہ مستقبل میں لبلبے کے کینسر کی تشخیص اور علاج بہتر طور پر ممکن ہو پائیں گے۔
لبلبے کے کینسر پر کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مرض کی تشخیص کے پانچ سال بعد اس میں مبتلا ہر دس افراد میں سے صرف ایک زندہ رہ پاتا ہے۔ سرطان کی اس قسم کے حوالے سے مزید بتایا جاتا ہے کہ اس کے کامیاب علاج میں ایک بڑی رکاوٹ ٹیومر کی جلدی شناخت نہ ہونا ہے۔ ساتھ ہی ٹیومر کو جسم سے ہٹانے کے طریقہ کار کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔
تاہم اب سائنسدانوں نے اس حوالے سے کچھ پیش رفت کی ہے، جس سے دنیا بھر میں اس مرض کا شکار تقریباﹰ پانچ لاکھ افراد میں کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔
لبلبے کے کینسر کے علاج میں اس کی جلد تشخیص کافی اہمیت کی حامل ہے اور اس حوالے سے تحقیق بھی ہو رہی ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش آئرلینڈ کے ٹرنٹی کالج ڈبلن سے وابستہ آنکالوجسٹ اسٹیفن مائر اور ان کی ٹیم نے کی ہے۔
اس ٹیم کا ایک مطالعہ سائنٹیفک رپورٹس نامی ایک جریدے میں شائع ہوا، جس میں لبلبے کے کینسر کے ڈیٹا سیٹس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے کی بنیاد پر 10 قسم کے پروٹین اور مائیکر آر این اے بائیو مارکرز کی شناخت کی گئی ہے۔
بائیو مارکر انسانی جسم میں موجود وہ مٹیریل ہوتا ہے، جس سے امراض کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ ماہر اور ان کی ٹیم کی جانب سے اس کی دس اقسام کی شناخت کے بعد یہ معلوم کرنا ممکن ہو سکے گا کہ لبلبے کی کوئی سِسٹ سرطان کے خطرے کی علامت ہے یا نہیں۔
اسی طرح امریکہ کی اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے ایسا ٹیسٹ تیار کیا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس سے لبلبے کے سرطان کی تشخیص مرض کے ابتدائی مراحل میں ممکن ہو گی۔ اس ٹیم کے مطابق اگر اس ٹیسٹ کو پہلے سے موجود ٹیسٹوں کے ساتھ کیا جائے، تو نتائج کی درستگی کی شرح 85 فیصد ہو گی۔
اس تحقیق کے مرکزی مصنف جیرڈ فشر کا کہنا ہے کہ لبلبے کے کینسر کی ابتدائی علامات کی شناخت ”موت اور زندگی کے درمیان کا فرق‘‘ ہو سکتی ہے، یعنی اس کے شکار افراد کی زندگی بچانے کے لیے کافی موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہتر تشخیص لبلبے کے کینسر کے علاج کا بس ایک پہلو ہے۔ بقول ان کے، ”ہمیں بہتر امیجنگ کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کی ٹیومر کہاں موجود ہے۔ اور اس کے بہتر علاج کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہو تو نامکمل علاج کی صورت میں لبلبے کے ٹیومر کا پہلے سے بھی بدتر ہونے کا خدشہ ہو گا۔
ہائیڈل برگ کے جرمن کینسر ریسرچ سینٹر کی ایک ٹیم حالیہ دنوں میں تحقیق کے دوران اس نتیجے پر پہنچی کہ لبلبے کے ٹیومر پاس موجود نرو سیلز میں داخل ہو کر ان میں تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں، جس سے ٹیومر کے بڑھنے کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوتا ہے۔
محققین کی یہ ٹیم چوہوں میں سرجری یا مخصوص ادویات کے ذریعے ان سیلز میں متاثرہ نیورونز کا لنک کاٹ کر انہیں علحیدہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کے لیے ایسا علاج ممکن ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔