
زمرد کی تلاش: سوات کے رہائشیوں کو کان کنی کے ملبے سے جواہرات کی تلاش
چند ہی خوش نصیب زمرد تلاش کر پاتے ہیں اور باقی غریب خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے ہیں
(سید عاطف ندیم-پاکستان):شمال مغربی پاکستان میں دریائے سوات کے کنارے درجنوں مرد پانی پر جھکے مٹی اور پتھر چھان کر دھوتے ہوئے اس امید پر تمام دن گذار دیتے ہیں کہ شاید سبز رنگ کا کوئی ایسا پتھر مل جائے جو ان کی زندگی بدل ڈالے۔
ان میں بونیر سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ جاوید خان بھی شامل ہیں جو گذشتہ چھے سال سے علاقے میں زمرد کی مشہور کانوں کے قریب کام کرنے والے ٹھیکیداروں سے ملبے کی بوریاں خرید رہے ہیں۔ بعد میں انہیں وہ اور دیگر لوگ جواہرات کے ٹکڑون کی تلاش میں چھانتے ہیں۔
سوات کی خوبصورت وادی اعلیٰ قسم کے زمرد پیدا کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مشہور ہے جہاں تقریباً 70 ملین قیراط کے ذخائر موجود ہیں۔ ان جواہرات کو ان کے گہرے رنگ اور شفافیت کی وجہ سے قیمتی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ یہاں تلاش کرنے والے چند ہی مردوں کو کبھی زمرد اپنے ہاتھ میں تھامنے کا موقع ملا ہو گا۔
لکڑی کی چھلنی، ایک چھوٹی چھری اور پانی کے ایک ڈبے کے ہمراہ زمرد کے متلاشی پتھروں اور ریت پر دریا کا پانی گراتے ہیں اور دھوپ میں مواد کو رگڑ کر صاف کرتے اور اس کا معائنہ کرتے ہیں۔
خان نے تازہ مواد صاف کرتے ہوئے کہا، "ماضی میں یہ بوریاں سستی ہوا کرتی تھیں اور ان میں ذرات زیادہ ہوتے تھے۔ اب تو خوش قسمتی چاہیے۔ چند ہی خوش نصیب زمرد تلاش کر پاتے ہیں اور باقی غریب خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے ہیں۔”
کان کنی کے کاموں کے باقی ماندہ ملبے کی بوریاں 100 روپے سے 2,000 روپے کے درمیان فروخت ہوتی ہیں۔ قیمت اس بات پر منحصر ہے کہ مواد سے زمرد ملنے کی کتنی امید ہے۔
زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ ایک جوا ہے جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
خان نے کہا، "مجھے کوئی بھاری رقم نہیں ملی۔ میری ایک دن میں اب تک کی سب سے زیادہ کمائی تقریباً 30,000 سے 40,000 رہی ہے۔ حتیٰ کہ اس قسم کی معمولی قسمت بھی زندگی میں ایک آدھ بار ہی آتی ہے۔ بعض متلاشیوں نے درمیانے درجے کی زندگی گذاری۔ دوسروں نے سب کچھ کھو دیا۔”
میاندام سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ محمد علی چھے ماہ سے اپنی قسمت آزما رہے تھے لیکن اب آخرِکار انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔
زمرد کی تلاش کے لیے حال ہی میں اپنے مویشی فروخت کرنے والے علی نے کہا، "مجھے آج تک ایک بھی چیز نہیں ملی۔ اس کام میں آج میرا آخری دن ہے۔ میں چھوڑ رہا ہوں۔”
انہوں نے مزید کہا، زمرد کی تلاش کی خواہش اپنے پیسہ مشہور دریائے سوات میں پھینکنے کے مترادف ہے۔
دوسری جانب شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ نور الرحمٰن جیسے ٹھیکیدار ہیں جو سوات میں مینگورہ کے قریب ایک کان کا انتظام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "کارکنان آتے ہیں اور ملبہ دیکھتے ہیں۔ اگر انہیں زمرد کے کوئی آثار جیسے ریت میں سبز ذرات یا رنگ نظر آ جائے تو وہ خرید لیتے ہیں۔ بعض ٹھیکیدار ملبہ سستا اور بعض مہنگا فروخت کرتے ہیں۔ جب ہم ایک بوری 100 روپے میں دیتے ہیں تو ہم اسے مشکوک کہتے ہیں۔”
زمرد چننے کا کاروبار دریا کنارے سے آگے تک پھیل گیا ہے اور سوات جیم سٹون مرچنٹس ایسوسی ایشن کے صدر قیصر سلطان کے اندازے کے مطابق اب ہزاروں لوگ کان کے ملبے کی صفائی اور الگ کرنے کے کام سے وابستہ ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا، "خواتین اور بچے بھی ملبہ گھروں کو لے جاتے ہیں جہاں وہ اسے صاف کر کے زمرد جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”