حیدر جاوید سیدکالمز

اپنی ذمہ داریاں اللہ سائیں پر نہ ڈالیئے….. حیدر جاوید سید

میرے کچھ دوست ان میں پڑھنے والے بھی شامل ہیں اس امر پر زور دیتے رہتے ہیں کہ سیاسی کالم کبھی کبھار لکھا کروں، زیادہ تر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر لکھوں اور صوفیائے کرامؒ کے ارشادات کی مناسبت ہے

کالم شرو ع کرنے سے قبل میں پڑھنے والوں سے دلی معذرت چاہتا ہوں، یہ معذرت کسی خوف یا ردعمل کا پیشگی اہتمام نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ میں اپنے کالموں میں اکثر ایسے موضوعات پر بات کرتا رہتا ہوں جو بقول برادر عزیز محمد عامر حسینی اخبارات کے کالموں میں نہیں کی جاتیں۔
میرے کچھ دوست ان میں پڑھنے والے بھی شامل ہیں اس امر پر زور دیتے رہتے ہیں کہ سیاسی کالم کبھی کبھار لکھا کروں، زیادہ تر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر لکھوں اور صوفیائے کرامؒ کے ارشادات کی مناسبت ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ احباب کی تجویز پر عمل کرسکوں، کوشش کا وعدہ اس لئے کہ مجھے کبھی پاپولرازم سے رغبت نہیں رہی اپنی فہم کے مطابق بات کرتا لکھتا ہوں۔
ہم اتفاقات کے نظاروں سے مستفید ہوتے رہتے ہیں ابھی دو سال قبل جو دوست ہمیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے جبرواختیار پر تنقید کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ پاک فوج کی محبت کے لئے
"باپ کا ایک اور ماں کا نیک ہونا ضروری ہے اور یہ کہ مسلح افواج جغرافیاں وحدت اور آزادی کی پہلی اور آخری ضمانت ہے ” ۔ ان دنوں وہی دوست اٹھتے بیٹھتے ہمیں کوستے اور کہتے ہیں ہم ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ہمنوائی میں جُتے رہتے ہیں۔
ہمارے کچھ مہربان لگ بھگ پانچ برس تک ہمیں اور دوستوں کو اسلامی صدارتی نظام کے فضائل بتاتے ہوئے سیاستدانوں کے لتے لیتے رہے وہی مہربان ان دنوں ہمیں آئین، جمہوریت اور انتخابی نظام کا ’’عمرانی قاعدہ‘‘ پڑھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔
ان سارے دوستوں کی صحت و سلامتی کی دعائوں کے ساتھ ہم کالم کے لئے منتخب آج کے موضوع پر بات کرتے ہیں۔
یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے سے پہلے یہ سوچ سمجھ لوں کہ آج کیا لکھنا ہے۔ زیادہ تر جس طرف قلم اور ذہن چل پڑیں والا معاملہ رہتا ہے۔
آیئے آج کے منتخب موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ملک میں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری بہت زیادہ ہے۔ خط غربت سے نیچے بسنے والے ملک کی مجموعی آبادی کے نصف سے تجاوز کرچکے آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن نے ایک کمرے کے گھر سے دو اڑھائی کنال کے بنگلے میں بسنے والوں تک سبھی لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
پچھلے پچاس برسوں سے میں دیکھ سن اور پڑھ رہا ہوں کہ مہنگائی ہے، غربت اور بدانتظامی ان مسائل نے لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔
ہر سال محرم الحرام، ربیع الاول اور رمضان المبارک میں کھمبیوں کی طرح ایسے سماج سدھار نکل آتے ہیں جو غربت کا چہرہ دیکھااور غریب کی بے بسی و بے کسی کا نقشہ کھینچ کر لوگوں کے لئے شرمندگی کا سامان کرتے ہیں۔
محرم الحرام اور ربیع الاول میں کہا جاتا ہے مجالس و میلاد پر اربوں کا لنگر اور دوسرا اہتمام کرنے والے یہ رقم دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود پر کیوں صرف نہیں کرتے۔ رمضان المبارک میں افطاریوں اور سحریوں کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ عیدالاضحی کی قربانی اور حج و عمرے بھی تنقید کی زد میں آتے ہیں۔
دو دن قبل یہ تجویز سامنے آئی کہ حکومت امسال رمضان میں عمرہ کرنے پر پابندی لگاکر زرمبادلہ بچالے۔
بالائی سطور میں جتنے بھی مسائل کا تذکرہ کیا اور ان کی وجہ سے لوگوں کی بنتی درگت کا ہم سبھی اس کا ذمہ دار ہر حکومت وقت کو سمجھتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں بھی ہمیشہ ان مسائل کے حوالے سے زیادہ تر حکومت کو ذمہ دار ٹھہراکر تنقید کے نشتر چلاتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے عصری شعور کا بھی شکر گزار رہتا ہوں کہ ان مسائل کا سوفیصد ذمہ دار حکومت کو نہیں سمجھتا بلکہ حق داروں تک حق پہنچاکر ان کی نشاندہی کرتا رہتا ہوں۔
ملک میں جو غربت اور اس سے جڑے دوسرے مسائل ہیں اس کی بنیادی وجہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے۔ مثلاً اپنے مطالعے کی روشنی میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں جو وسائل ہیں یہ مشکل سے 7 کروڑ لوگوں کے لئے ہیں آپ کھینچ تان کر ان سے 10 کروڑ افراد کی زندگی کا سامان کرسکتے ہیں اب دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ 10 کروڑ لوگوں کی ضرورتوں پر اگر 26 یا 27 کروڑ لوگ پلیں گے تو نتیجہ کیا ہوگا؟
(یاد رہے کہ ہم ابھی سمگلنگ پر بات نہیں کررہے جس کی وجہ سے صرف افغانستان کی 62 فیصد غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں)
یہ ایک نکتہ ہے دوسرا یہ ہے کہ کیا کبھی ہم اور آپ نے سوچا ہے کہ یہ جو ہر آنے والا (پیدا ہونے والا بچہ) اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے، کی متھ ہے اس نے احساس ذمہ داری، زندگی بسر کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرنے اور بچوں کی عصری شعور اور ضرورتوں کے ساتھ تربیت کا فرض ادا کرنے سے محروم کرکے ایک ایسی متھ کے ٹرک کی بتیوں کے پیچھے دوڑارکھا ہے جسے فروغ دینے والوں کی اپنی کئی پشتیں اور نسلیں اسی متھ کے کاروبار اور خوف و ترغیب سے ملنے والے فیض (صدقہ زکوٰۃ، خیرات وغیرہ) پر پلتی ہیں۔
سوال بہت سادہ ہے اولاد کی تربیت کا ذمہ دار کون ہے، والدین یا اللہ سایئں؟
آخر کیوں ہم ہر معاملہ اللہ سائیں پر چھوڑ کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرتے ہیں؟ جب ایک صاحب اولاد جوڑا اپنے دستیاب وسائل میں ایک یا دو بچوں کی عصری ضرورتوں کے ساتھ آسانی سے پرورش کرسکتا ہے تو پھر بچوں کی لائن لگانے کی ضرورت کیا ہے۔
اللہ مالک و رازق ہے لیکن عقل و شعور بھی تو اسی کے عطا کردہ ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ دنیا میں آنے والا بچہ اپنے ساتھ کوئی چیک یا عمر بھر کی ضرورتوں کے حساب سے سامان لایا ہو؟
بے ہنگم انداز میں آبادی بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کی ذمہ داری ہم سبھی کو قبول کرنی چاہیے۔
آپ چار اور نگاہ دوڑاکر دیکھ لیجئے بلکہ کئی لوگوں کو تو آپ بھی جانتے ہوں گے جو اولاد نرینہ کے حصول کی خواہش پر پانچ سات بیٹیوں کے بعد ایک آدھ بیٹا پیدا ہونے پر اتراتے پھرتے ہیں کیا بیٹیاں بوجھ ہیں؟ کیوں دستیاب وسائل سے ہم اپنی بیٹیوں کی تربیت نہیں کرتے انہیں صرف جنازے کی رونق سمجھنے کی بجائے وارث کیوں نہیں سمجھتے؟
یہ درست ہے کہ حکومت وقت بہت سارے مسائل کے گھمبیر ہونے کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن ہمیں اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری کا بوجھ خود اٹھانا چاہیے اور تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم سے ڈھب سے زندگی بسر کرنے کی منصوبہ سازی نہ کرنے کی غلطی ہوئی۔ حکومت کی غلطی یہ ہے کہ اس نے آبادی میں بے ہنگم اضافے کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔
لے دے کر ایک خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام ہے جو پولیو کے قطروں کی طرح فتوئوں کی زد میں رہتا ہے۔ گزشتہ 76 برسوں میں حکومتوں نے اشرافیہ پروری پر جتنے وسائل اڑائے ان کا دسواں حصہ بھی نچلے طبقات کی فلاح و بہبود اور ان کی شعوری رہنمائی پر صرف کیا ہوتا تو کچھ نہ کچھ بہتری ہمارے چار اور دیکھائی ضرور دیتی۔
یقیناً آبادی میں اضافے کو روکنے کیلئے حکومت کو اپنے فرائض ادا کرنا ہوں گے۔ نچلے طبقات کی آبادیوں میں سیروتفریح اور کھیل کود کے لئے گرائونڈز ضروری ہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم مفت لازمی تعلیم کا قانون دو دھاری تلوار کی طرح لٹکایا جاسکتا ہے مثلاً اگر کوئی حکومت ایک سال میں 100 ارب روپے مختلف طریقوں سے کچلے ہوئے طبقات کے لوگوں پر خرچ کرتی ہے تو اس میں سالانہ بنیادوں پر 10ارب روپے کی کٹوتی کرتے 90 ارب خرچ کرے 10 ارب کی زیادہ نہیں تو 10 صنعتیں یا ایسے ادارے لگائے جو روزگار دے سکیں۔ کاٹیج انڈسٹری کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔
مفت لازمی تعلیم سائنس کے مضمون کے ساتھ میٹرک و ایف اے ، ایف ایس سی تک اور پھر فنی تعلیم دی جائے تاکہ ہنرمند پیدا ہوں لکیر کے فقیر نہیں۔
حکومت ایسے منصوبے بنائے جن سے زرعی رقبہ وسیع ہو اور کاٹیج انڈسٹری کا دائرہ بھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں (یعنی ہم سب کو) ھی اس مصنوعی متھ سے نجات حاصل کرنا ہوگی کہ آنے والا اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔
معاف کیجئے گا میری اور آپ کی اولاد ہماری ذمہ داری ہے اللہ سائیں اور فرشتوں کی بالکل بھی نہیں۔
بار دیگر اخباری روایت سے ہٹ کر لکھے گئے اس کالم پر معذرت چاہتا ہوں۔ میری فہم نے جس طرح رہنمائی کی میں نے معروضات آپ کے سامنے رکھ دیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button