(رپورٹ وائس آف جرمنی)16 دسمبر 2014 کی دوپہر جب والدین اپنے بچوں کی اسکول سے واپسی کے منتظر تھے تو ایسے میں تمام ٹی وی چینلز پر پشاور کے ورسک روڈ پر قائم آرمی پبلک اسکول (آے پی ایس) پر دہشت گردوں کے حملے کی خبر چلنا شروع ہوئی۔گھنٹوں پر محیط اس سفاکانہ کارروائی اور آپریشن کلین اپ میں 130 سے زائد طلبہ سمیت 147 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔
اسی مناسبت سے سرکاری سطح پر جاری ہونے والے ایک نوٹی فکیشن کے مطابق اے پی ایس سانحے کے 10 سال پورے ہونے پر لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسکولوں اور کالجز میں چھٹی دے دی گئی۔خیبر پختونخوا جہاں یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا وہاں اس حوالے سے حکومت کی جانب سے تعطیل کا اعلان نہیں کیا گیا اور تمام اسکول معمول کے مطابق کھلے۔
پاکستان ‘انسٹی ٹیوٹ فار پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز’ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2024 میں دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہوئے۔رواں سال دہشت گردی کے 1100 سے زائد حملے ہو چکے ہیں جس میں تقریباً 500 کے قریب سیکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ان حملوں کا گزشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو یہ تعداد 35 فی صد سے زائد بنتی ہے جب کہ ہلاکتوں میں 11 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سابق سیکریٹری داخلہ خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ اے پی ایس سانحہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ان کے بقول پاکستان کے ہمسایہ کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اس کے اثرات بھی انے والے دنوں میں پاکستان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ان کے بقول شام کی صورتِ حال کے بعد وہاں سے شدت پسند تنظیمیں پاکستان کا بھی رُخ کر سکتی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی کا براہ راست تعلق گورننس سے جڑا ہوتا ہے اور جہاں قانون کی حکمرانی پر سوال اُٹھتے ہیں وہاں شدت پسند تنظیموں کے لیے مواقع موجود رہتے ہیں۔سید اختر علی شاہ کہتے ہیں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب اور سندھ کے کچے کے علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف حکومت رٹ کچھ زیادہ مؤثر نہیں ہے۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے حال ہی میں قومی اسمبلی میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے مطابق جنوری سے اکتوبر 2024 تک مجموعی طور پر لگ بھگ 13 ہزار انٹیلی جینس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جس کے نتیجے میں 341 دہشت گرد مارے گئے۔
گزشتہ 10 ماہ کے دوران چار دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ ان میں زینبیون بریگیڈ، مجید بریگیڈ اور حافظ گل بہادر گروپ شامل ہیں۔