کالمزحیدر جاوید سید

جہادی فیکٹریاں اور اسلامی انقلابیئے…..حیدر جاوید سید

افغان جہاد سے قبل جن کے باپوں کے پاس سواری کے لئے سائیکل کیا گدھا تک نہیں تھا وہ جہاد کی برکتوں سے موٹروں میں فرارے بھرتے اور جہازوں میں سفر طے کرتے ہوئے ملے۔

ایسا نہیں ہے ہم صرف عالمگیر یا مقامی اسلامی انقلاب کے فدائین کی فہم اور جدوجہد پر تنقید برائے تنقید کرتے اور اسی پر یقین رکھتے ہیں البتہ ہمیں یہ ضروری پیش نظر رکھنا چاہیے کہ خوابوں کی تجارت بنام مذہب و عقیدہ ہو یا کسی اور طریقے سے فائدہ میں تاجر ہی رہتا ہے خریدار تو بس دو باتیں جانتا ہے ’’قسمت کا لکھا اور اللہ کی رضا۔‘‘
آپ افغانستان کے انقلاب ثور کے بعد وبا کی طرح پھوٹ پڑنے والے جہادی رجحان کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجئے، ریاست اور سول جہاد سازوں کی "پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی” میں رہا لیکن جہادی جذبات کے اسیر ہوئے لوگ موت کا رزق ہوئے ان کے خاندانوں پر کیا بیتی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے نکلیئے چودہ میں سے اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
افغان جہاد سے قبل جن کے باپوں کے پاس سواری کے لئے سائیکل کیا گدھا تک نہیں تھا وہ جہاد کی برکتوں سے موٹروں میں فرارے بھرتے اور جہازوں میں سفر طے کرتے ہوئے ملے۔
مثال کے طور پر مرحوم قاضی حسین احمد کو لے لیجئے انہوں نے اور ان کی جماعت نے جہاد سازی کے دھندے میں ہزارہا پاکستانی خاندانوں کے بچے اور بڑے جہاد میں مروائے لیکن جب قاضی حسین احمد کے اپنے فرزند جہاد کے لئے افغانستان گئے تو وہ پدرانہ جذبات سے مجبور ہوکر چارٹر طیارے کے ذریعے کابل پہنچے اور صاحبزادے کو گھر واپس لے آئے۔
آپ صرف جماعت اسلامی کے جہادی ایجنٹوں کو دیکھ پرکھ لیجئے انہوں نے جہاں کی تپش سے اپنے خاندانوں کو دوررکھا اگر میں عرض کروں کہ یہ جہاد (افغانستان اور کشمیر دونوں کا) بھی طبقاتی تھا تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
میں خود جہادی سازی کی صنعت سے متاثرہ خاندانوں میں سے ایک خاندان کا فرد ہوں میرے والد محترم سمیت ددھیال و ننھیال کے لگ بھگ 9 افراد جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر کا رزق بنے ان تمام مرحومین کا تعلق سفید پوش خاندانوں سے تھا۔
میری دانست میں اگر پاکستانی ریاست کم از کم نجی جہادی فیکٹریاں قائم کرنے کی اجازت نہ دیتی تو 1980ء کی دہائی کے وسط میں پھوٹ پڑی فرقہ وارانہ عسکریت پسندی کا دروازہ کھلتا نہ ہی فرقہ پرستوں کو اپنی عسکریت پسندی کے لئے خام مال مل پاتا۔
افغان انقلاب ثور اور ایرانی انقلاب کے دنوں میں ہمارے ہاں (پاکستان میں) جنرل ضیاء اقتدار پر قابض تھے انہیں اقتدار میں لانے والی عالمی قوتوں کے سرخیل امریکہ نے جولائی تا ستمبر 1976ء کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کو شیشے میں اتارنے کی کوششیں کیں ناکامی پر بھٹو مخالفوں کو گود لے لیا۔
جنرل ضیاء الحق اپنے زمانہ اردن میں تعیناتی سے امریکیوں کے رابطے میں تھے۔
ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے شرعی جواز پیش کرنے والے دونوں طرح کے لوگ راتوں رات پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل پر متفق ہوگئے۔
مارچ 1977ء کے انتخابات کے حوالے سے بعض شکایات بجا طور پر درست تھیں اس کا ثبوت بعدازاں پی این اے اور بھٹو کے درمیان قومی اسمبلی کی تقریباً 40 نشستوں پر ازسرنو انتخابات کا طے پانا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگر سارا ا لیکشن غلط تھا جیسا کہ پی این اے کے قائدین دعویدار تھے تو پھر ا یک مخصوص تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر ازسرنو انتخابات کے لئے رضامند کیوں ہوئے؟
بہت معذرت بات دوسری جانب نکل گئی افغان انقلاب ثور اور ایرانی انقلاب کے بعد ہمارے یہاں کے اسلام پسندوں نے بھی پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے خواب آنکھوں میں سجائے اور اپنے اپنے ہمدردوں میں کاشت بھی کئے۔ مختلف الخیال انقلابوں کی فصل جب کٹی تو پورا ملک خون میں نہاگیا کیونکہ ضروری تھا کہ ان میں سے ہر انقلابی پہلے اپنے مخالف کی گردن مارے تاکہ ’’گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچ ’’ساڈا‘‘ انقلاب اسلامی پھرے‘‘۔
چلیں ایک سادہ سا سوال ہے، پاکستانی ریاست کی رضامندی سے لگنے والی جہادی فیکٹریوں کے کتنے مالکان کے بیٹے بھانجے بھتیجے جہاد کا رزق ہوئے وہ کیا وجہ تھی کہ ان فیکٹریوں کے مالکان نے دنیاوی "عزت ” اور اخروی "مقام” سے اپنے خاندانوں کو محروم رکھا؟
پاکستان میں اسلامی نظام کے لئے سرگرم مذہبی جماعتوں میں سے ہر جماعت اپنے عقیدے کو ہی اول و آخر اسلام سمجھتی اور اسی طور پیش بھی کرتی ہے ۔
یہ ساری مذہبی جماعتیں فرقہ وارانہ شناختوں پر قائم ہیں۔ پاکستانی ریاست کا آئین (1973ء والا) کہتا ہے ’’ایسی کسی تنظیم کے قیام اور سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی جو سماجی تقسیم اور نفرتوں کے بڑھاوے کا سبب بنیں‘‘
اب بتایئے کیا اس اصول کی روشنی میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاسی جماعتیں بن سکتی تھیں؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہوگا کہ فرقہ وارانہ مذہبی سیاسی جماعتیں تو 1973ء کے دستور کی منظوری سے قبل بھی موجود تھیں اور انہوں نے دستور سازی کے عمل میں بھی حصہ لیا۔
یہ درست بات ہے یہی حقیقت ہے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا خیال یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کے مالکان نے حقیقی معنوں میں جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لئے اخلاص کا مظاہرہ کیا ہوتا تو فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کے قیام کی عوام خود حوصلہ شکنی کرتے نیز یہ کہ اولین وزیراعظم لیاقت علی خان کو قرارداد مقاصد والے ملائوں کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے تھی لیکن ان کے پیش نظر بھی صرف اپنا ذاتی انتخابی حلقہ تھا اور ایک نجی معاملہ جسکی وجہ سے وہ مولویوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے۔
ہمارے کچھ بزرگوں اور دوستوں کا کہنا لکھنا یہ ہے کہ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اس لئے اگر یہ اسلامی انقلاب کے دیوانوں کی منڈی بن گیا تو غلط کیا ہے۔
میں ان سے اکثر سوال کرتا ہوں کہ پھر جناح صاحب کی 11 اگست 1947ء کو دستورساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر کو کہاں فٹ کریں گے کیونکہ سیاست کا بنیادی اصول تو یہ ہے کہ لیڈر کا پارلیمان میں بیان اخلاقی اورقانونی حیثیت رکھتا ہے ؟ ۔
پاکستانی سیاست کے اسلامی انقلابیئے ہوں یا سرخ انقلاب کے داعی و حامی ہر دو کی اٹھان ان کے سماجی اثرات اور نتائج پربات ہونی چاہئے بدقسمتی سے ہمارے یہاں ہر کس و ناکس کا لیڈر ’’انعامِ الٰہی‘‘ ہوتاہے اس لئے اس کے گرد تقدس کا ہالہ کھینچ ک دیوتا سے بلند مقام عطا کردیا جاتا ہے۔
اب دیوتائوں پر تنقید کون کرے اوران کے کج کون دیکھائے۔ ہر دو کام کرنے والوں کی جو درگت بنتی ہے اس کی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں
مثلاً پاکستانی سیاست کو ایجنسیوں کے عطاکردہ دیوتا عمران خان کو ہی لے لیجئے سوشل میڈیا پر ذرا اس کے ناقد بن کر جوابات سننے کا حوصلہ کیجئے لگ پتہ جائے گا۔
معاملہ صرف عمران خان کا نہیں سبھی کے لیڈر و رہنما آسمانی اوتار سے کم درجہ نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں تو ریاست بھی تقدس کی دولت سے مالامال ہے۔
بہرحال کڑوا سچ یہہے کہ غلطیاں سیاستدانوں سے بھی سرزد ہوئیں لیکن نفرتوں کا جو زہر اسلامی انقلاب کے ہمہ قسم کے دیوانوں نے اس سماج میں بھرا اس کے نتائج خون کے آنسو رلاتے ہیں۔
اپنے اپنے مدارس میں ایک دوسرے کے رد کے مضامین اور تفکیر کے نکات رٹنے والے جب اتحاد و اخوت کی بات کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔
نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہ مذہب و عقیدہ اور شخصیت پرستی پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار ہے ہر قسم کے ٹیکس اور جواب طلبی سے محفوظ کاروباروں کو اسلام کی نشاط ثانیہ اور اسلامی انقلاب کے لئے چلایا جارہا ہے اس پر تنقید یا سوالات سے ضدِ انقلاب اور اسلام دشمن ہونے کے فتوے لگتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button