بین الاقوامی

محصولات کی امریکی جنگ میں چین کا نیا وار، امریکی مصنوعات پر 84 فیصد ٹیرف

اس سے قبل چین نے امریکی مصنوعات پر 34 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ، چین اور بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک پر جو اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا تھا ان کا نفاذ بدھ کی نصف شب سے شروع ہوا۔ اس سے چین، بھارت اور یورپی یونین سمیت امریکہ کے بہت سے تجارتی شراکت داروں کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔
نئے محصولات نے یورپی یونین اور جاپان جیسے اتحادیوں کی درآمدات کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس سے عالمی تجارتی جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
دوسری جانب چین نے جمعرات سے امریکی درآمدی مصنوعات پر 84 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا، اس سے قبل چین نے امریکی مصنوعات پر 34 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا۔ چینی وزارت خزانہ کی جانب سے بدھ کو جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر 104 فیصد ٹیرف نافذ کیے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔
ادھر چینی وزارت تجارت نے مزید چھ امریکی کمپنیوں کو ’غیر معتبر اداروں کی فہرست‘میں شامل کرلیا ہے جس سے ان کمپنیوں کے لیے چین میں کاروبار کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ اس فہرست میں ایرو اسپیس اور ڈیفنس کمپنی ’سییرا نیواڈا کارپوریشن‘ سمیت مصنوعی ذہانت سے وابستہ دیگر امریکی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل چین معروف فیشن برانڈز کی مالک کمپنی ’پی وی ایچ‘ کو بھی اس فہرست میں شامل کرچکا ہے۔
’غیر معتبر اداروں کی فہرست‘ میں شامل کمپنیوں کو چین میں مالی جرمانوں اور ریگولیٹری پابندیوں سمیت دیگر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو ان کے کاروباری آپریشنز کو شدید متاثر کر سکتی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی مصنوعات کی درآمد پر 34 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا جس کے بعد امریکا میں چینی مصنوعات کی درآمد پر مجموعی ٹیرف 54 فیصد ہوگیا تھا۔
امریکی محصولات کے جواب میں چین نے امریکی مصنوعات کی درآمد پر 34 فیصد ٹیرف کیا تھا اور ساتھ ہی کچھ اہم معدنیات کی برآمدات پر بھی پابندیوں عائد کی تھیں۔
ساتھ ہی چین نے 11 امریکی کمپنیوں کو ’غیر معتبر اداروں‘ کی فہرست میں بھی شامل کردیا تھا۔
چینی اقدام کے جواب میں امریکی صدر نے چین پر مزید 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد آج سے امریکہ میں چینی مصنوعات کی درآمد پر مجموعی طور پر 104 فیصد ٹیرف عائد ہو گیا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button