انٹرٹینمینٹ

دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں اَن کہی محبت کی کہانیوں کو مہک نے دی قلم کی زبان

کشمیری مصنفہ مہک جمال نے ’’لول کشمیر‘‘ نامی کتاب میں مواصلاتی بندش یعنی دفعہ 370 کے بعد کی سچی محبتوں کی کہانیاں بیان کی ہیں۔

سرینگر (پرویز الدین) : مہک جمال کی ’’لول کشمیر‘‘ نامی کتاب ان دنوں سرخیوں میں ہے، کیونکہ اس کتاب میں ان سچی کہانیوں کو منظر عام پر لایا گیا جو کہ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مواصلاتی نظام منقطع رہنے سے یہاں دیکھنے کو ملیں۔ کتاب میں لکھی گئی مختلف کہانیوں کے ذریعے مصنفہ مہک جمال قارئین کو وادی میں محبت، تعلق اور بقا کے گہرے اور ذاتی مشاہدے کراتی ہے اور یہ ایسی سچی محبت کی کہانیوں سے آشنا کراتی ہیں جن کے بارے میں لوگ نا واقف ہیں۔
مہک جمال نے 2019 میں کشمیر میں مواصلاتی نظام پر عائد پابندیوں، کرفیو اور بندشوں کے دوران ان دلچسپ واقعات اور سچی کہانیوں کو کتابی شکل دے کر لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ ان اَن کہی اور اَن سنی سچی کہانیوں سے لوگ بھی واقف ہوں۔ کتاب میں حالات کے تقاضوں کے عین مطابق محبت کی الگ الگ کہانیوں کو پیش کیا گیا ہے۔ رومانیت، والدین کا بچوں کے تئیں محبت اور دوستوں کی آپسی محبت کی کہانیاں کتاب کا اہم حصہ ہیں۔
مہک جمال فلم میکر بھی ہیں اور ’’لول کشمیر‘‘ ان کی بطور مصنفہ پہلی کتاب ہے۔ مہک کہتی ہیں کہ کتاب میں کُل 16 کہانیاں ہیں اور سبھی منفرد اور جداگانہ ہیں اور کتاب کو تین دور کی کہانیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جس میں 90 کی دہائی،2010،2008،2016، اور 2019 میں دفعہ 370کی منسوخی کے بعد پیدا شدہ صورتحال میں معرض وجود میں آئی کہانیاں ہیں۔ جو کہ مسلسل لاک ڈاؤن اور بندشوں میں دیکھنے میں آئیں۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر میں مختلف ادوار میں جو بدامنی اور خراب حالات رہے ہیں، یہ کہانیاں اُن ہی الگ الگ ادوار کی ہیں۔‘‘
مہک جمال کہتی ہیں کہ ’’سال 2019 میں دفعہ 370کی منسوخی کے بعد کشمیر میں پیدا شدہ حالات نے مجھے ایسی کہانیاں لکھنے اور لوگوں تک پہنچانے کی طرف مائل کیا۔‘‘ انہوں نے سال 2020 میں اس کتاب کو تحریر کرنے کا کام شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ کتاب کو مکمل کرنے میں تقریباً 4 سال کا عرصہ لگا اور جنوری 2025 میں یہ کتاب منظر عام پر لائی گئی۔
مصنفہ کہتی ہیں کہ ان کہانیوں کو جمع کرنا کافی چلینجنگ رہا: ’’میں خود ان لوگوں سے ملی جن کی یہ کہانیاں ہیں، کئی لوگوں نے اپنی آپ بیتی فون پر بعض نے زوم کالز پر سنائیں اور کئی لوگوں کی کہانیاں میں نے سنی ہوئی تھیں۔ اس طرح میں ان کہانیوں کو کتابی شکل دینے میں کامیاب رہی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کہانیوں کے کئی کرداروں کے نام مخفی رکھے گئے یا تبدیل کر دئے گئے ہیں، کیونکہ وہ اپنی کہانی لوگوں تک پہچانے میں دلچسپی تو رکھتے تھے لیکن اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے اور ان کی کہانیاں اسی شرط پر تحریر کی گئی ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں سبھی کہانیاں یوں تو بے حد دلچسپ ہیں مگر جس کہانی نے میں مجھے زیادہ متاثر اور رونے پر مجبور کیا ہے وہ ان پاکستانی خواتین کی ہیں جنہوں نے کشمیری لڑکوں سے شادیاں کی ہیں اور جنہیں باز آبادی کاری پالیسی کے تحت 2010 میں کشمیر لایا گیا مگر اب تک انہیں یہاں کی شہریت نہیں مل پائی ہے۔
31 سالہ مہک جمال نے کریٹیو آرٹس ان فلمز میں ’’سریشتی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ ڈیزائین اینڈ ٹیکنالوجی، بنگلورو‘‘ سے گریجویشن کی ہے اور ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت کشمیر میں ہی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک ’’تبتی‘‘ فلم میں بطور اسکرپٹ سپروائزر کے کیا۔ اب تک انہوں نے کئی شاٹ اور فیچرز فلمز بھی بنائی ہیں اور ’’بیڈ ایگ‘‘ شارٹ فلم کے لیے انہیں ایواڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button